غزل فقیروں سی صورت

ایک غزل باذوق احباب کی نذر
          از قلم :    کاشف شکیل

فقیروں سی صورت بنا کر چلے
ترے در کا خود کو گدا کر چلے

تری جستجو میں یہ وارفتگی
کہ خود کو ہی خود سے جدا کر چلے

یہ زلفیں، یہ عارض، یہ لب، یہ نگاہ
مرے تن بدن کو جلا کر چلے

ہوئے عازم کوئے جاناں جو ہم
ہر اک نقش دل سے مٹا کر چلے

خرد دل کے کہنے میں آتی نہیں
سو اس کو بھی تجھ پر فدا کر چلے

عبادت، ریاضت بھی تجھ پر نثار
اگر یہ خطا ہے خطا کر چلے

وہ چاہ ذقن ہے یا تقوی شکن
سبھی دین و ایماں لٹا کر چلے

طلب جب بھی ان سے ہوئی دید کی
"وہی لن ترانی سنا" کر چلے

نہ ہو کیوں قدم بوس ان کی غزل
تغزل مجھے جو عطا کر چلے

فقط خواب تھے دید کا آسرا
وہ ان کو بھی کاشف فنا کر چلے

Kashif Shakeel

Comments

Popular posts from this blog

قربانی کا فلسفہ اور اعتراضات کا جواب

قاری حنیف ڈار